آج کی اچھی بات




 جب میرے بھائی کی شادی ہوئی تو بھابھی کے ایک عمل نے ہم سب کی نگاہوں میں ان کو پسندیدہ بنا دیا۔
شروع دنوں میں ہی انھوں نے  ہمارے گھر میں ایک نئ عادت کی بنیاد ڈالی جو پہلے نہیں تھی وہ یہ کہ جب بھی کوئی باہر سے آتا خواہ بازار،سکول،کالج سے یا کام سے بھابھی اس کو پانی پیش کرتیں۔
جتنا بھی ضروری وہ کام کررہی ہیں،آنے والے نے دہلیز کے اندر قدم رکھا ہے وہ وہیں کام چھوڑتے کچن میں چلی گئ ہیں سب سے پہلے جگ یا گلاس میں پانی لاکر پیش کیا۔
امی اور بھائی کی حد تک ٹھیک تھا،جب وہ ہم بہنوں کے لیے بھی یہ ہی کرتیں تو بہت عجیب لگتا ایسے جیسے ہم ظالم نندیں ہوں۔ہم نے ان کو بہت بار منع کیا کہ ہم خود پی لیں گے پانی آپ نہ کیا کریں جواب میں انھوں نے کوئی وضاحت کوئی دلیل پیش نہیں کی بس اپنی عادت پر قائم رہیں۔میں کالج سے آتے پہلے یونیفارم چینج کرتی وہ میرے گھر میں داخل ہوتے ہی بیگ اتارنے سے پہلے پانی تھماتیں۔
باجی آئیں،بھائی کوئی بھی انھوں نے گھر والوں کو ترجیحی بنیادوں پر پانی پیش کرنا۔اس عمل کا یہ اثر ہوا کہ میری امی کی نظروں میں وہ بیٹیوں سے زیادہ فرماں بردار بہو قرار پائیں کہ بیٹیاں میرے لیے پانی لیکر نہیں کھڑی ہوتیں،وہ کہے بغیر پانی دیتی نہیں پیش کرتی ہے۔
پچھلے سال بھابھی نے روٹیاں بنانی اور چاول بنانا سیکھے ہیں،ہمارے گھر آکر کھانا بنانا اور سب سیکھا باورچی خانے سے متعلق وہ کچھ بھی سیکھ کر نہیں آئیں تھیں۔
لیکن امی نے ہم سب سے کہہ دیا خبردار کسی نے اسے جتلایا بھی کہ اسے کھانا بنانا نہیں آتا یہ وہ۔
اب وہ سب کچھ اتنے اچھے سے سیکھ گئ ہیں کہ یقین ہی نہیں آتا یہ آج سے پہلے روٹیاں بناتے اس کے نقشے بناتی رہی ہیں۔
بہرحال سسٹر کی شادی ہوئی اس نے کہے بغیر یہ طرزِ عمل اپنے سسرال میں اپنایا،وہاں بھی یہ رواج نہیں تھا جو باہر سے آئے اسے پروٹوکول دیتے ہیں،سسٹر نے چونکہ بھابھی سے سیکھا تھا سو اس نے دینا شروع کیا،ساس بازار سے آئی ہیں سسٹر نے جھاڑو لگاتے چھوڑ کر ہاتھو دھو کر ساس کو پانی دیا۔
سسر آئے ہیں،ہانڈی میں ڈوئی چھوڑ کر اس نے پہلے ان کو پانی پیش کیا،نند،جیٹھ شوہر کوئی بھی آئے وہ یہ ہی کرتی ہے۔
اب نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اس کی ساس میری امی کی طرح بہو کی قدر دان ہیں ماشاءاللہ،بیانیہ ان کا یہ ہے کہ بڑی بہو،اور بیٹی نے کبھی باہر سے آتے پانی نہیں پوچھا چھوٹی بہو سب کام چھوڑ کر سب سے پہلے پانی پیش کرتی ہے۔
راوی چین ہی چین لکھ رہا الحمدللہ۔
بہت سے لوگوں کو اس سے اختلاف ہوگا کچھ خواتین کو بہت کچھ غلامی کے زمرے میں آتا دکھائی دے گا لیکن میں بتاتی چلوں ہمارے یہاں یہ تہذیب و ثقافت ہے،خاندانی تہذیب و ثقافت یہاں بہوؤں سے زبردستی خدمت نہیں لی جاتی لیکن جو بہو سسرال کو عزت و احترام دے اسے سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔
ہم۔انسانی نفسیات اور ضروریات کا اگر بنیادی علم حاصل کرکے اس پر عمل کریں تو ہم انسانوں کو معاشرے میں پسندیدہ انسان بن سکتے ہیں۔
باہر سے آیا ہوا انسان تھکا ہوا ہوتا ہے،پیاسا ہوتا ہے،اسے پانی دینا نہیں بلکہ پیش کرنا اس کی نفسیات پر بہت گہرے اثرات چھوڑتا ہے۔انسان آپ کے دشمن نہیں دوست ہی ہونے چاہیں،سو جتنا ہوسکے گھر اور باہر دوستانہ تعلقات استوار کیجیے۔
دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے لیے ہمیں دوسروں کو ترجیح،پروٹوکول،اہمیت احساس سب کچھ دینا پڑتا ہے،پھر جاکر تعلقات استوار ہوتے ہیں۔اور یہ تعلقات اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ کوئی شیطان اس میں رخنہ نہیں ڈال سکتا۔
وہ شیطان رشتے دار کے روپ میں ہو یا کسی بھی روپ میں۔
کہنا صرف اتنا چاہوں گی کہ ہر چیز ہم والدین کی تربیت سے نہیں سیکھ سکتے کچھ چیزیں معاشرے سے بھی سیکھنا پڑتی ہیں،وہ معاشرہ آپ کی بھابھی،نند،سہیلی،اور مرد ہونے کی صورت بہنوئی،سالا،سسر،دوست وغیرہ کوئی بھی ہوسکتا ہے،معاشرے کو اچھا دیکھنا چاہتے ہیں تو ان اچھائیوں کو اپنائیں جس سے معاشرے پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے