مظلوم شوھر

آج جو گنجا نظر آتا ہےسر اسکا کبھی گنجان تھا
بیگم نے کیا خاک اسے جو بنتا کبھی خاقان تھا

بچپن سے جوانی تلک وہ ماں کی آنکھ کا نور تھا
بعد شادی جوہوئی چشم کشا تو نورسارا کافور تھا

پہلے تھا گدھے کی اولاد اور پھر بنا گدھے کا باپ
اب کیا کہیے قسمت کو یونہی منظور تھا

ہاں! نظر آتی ہیں اب بھی بیگم سراپا تبسم اسے
ہوئی سراب زندگی اسکی جو متمنی تعبیرخواب تھا

ملتا تو ہم سے اب بھی ہے وہ بظاہر خلوص سے
ہے مگر ناپید اسکی طبعیت میں جوکبھی جوش تھا

اجی ہوش کے ناخن تو اس نے کب کے ہی کٹوا دیئے
صرف ‘جی بیگم’ جانتا ہے اب وہ جو کبھی جی دارتھا

دولہا بننا زندگی کا اک سنگ میل ہے، یہ اسے معلوم تھا
زندگی پھر سنگ کہ سنگ گزرے گی یہ مگر نا معلوم تھا

روٹھی بیوی کومیکے سے منالانے کے بعد، سرفراز!
خود کو چغد گردانتا ہے کچھ دن تلک جو شاداب تھا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے