چوری کی سزا

پیارے بچوں!

چوری کرنا بہت بری بات ہے۔ اس سے اللہ تعالٰی ناراض ہوتا ہے اور اللہ کے پیارے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بھی ناراض ہوتے ہیں، عام طور پر بچے ایک دوسرے کے قلم، کاپی، قاعدہ، کتاب چرا لیتے ہیں، بعض بچے گھر میں ماں باپ کی اجازت کے بغیر پیسے اٹھا کر چیز کھا لیتے ہیں، بعض بچے ٹھیلے والے کی نظروں سے بچا کر ٹھیلے سے چیزیں چرا لیتے ہیں۔ کسی کے گھر جاتے ہیں تو وہاں سے کوئی چیز اٹھا لیتے ہیں، لوگوں کے گھروں سے باہر صحن میں لگے درختوں سے پھل توڑ کر کھا لیتے ہیں، مسجد میں نماز پڑھنے جاتے ہیں تو اپنی ٹوٹی پھوٹی چپل چھوڑ آتے ہیں اور دوسرے بچے کی اچھی چپل پہن آتے ہیں اسی طرح کئی طریقوں سے دوسروں کی چیزیں اٹھا لیتے ہیں، بلا اجازت کھا پی لیتے ہیں اور اسے کوئی برائی بھی نہیں سمجھتے۔ جبکہ چوری کرنا حرام و گناہ ہے اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
پیارے بچوں! چوری کرنا اس قدر برا کام ہے کہ اسلامی نے چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم فرمایا ہے اور چوری کرنے والے کو آخرت میں بھی ذلیل و رسوا کیا جائے گا بلکہ جو بچے چوری کرتے ہیں پکڑے جانے پر دنیا میں وہ ذلیل و رسوا ہوتے ہیں، انہیں مارا پیٹا جاتا ہے اور مدرسہ و اسکول سے نام بھی خارج کر دیا جاتا ہے۔ لٰہذا اچھی بچے کسی کی چیز بلا اجازت نہ لیتے ہیں اور نہ کھاتے ہیں لٰہذا ہمیں چوری سے بچنا چاہئے جیسا کہ چوری نہ کرو ہمارے پیارے آقاحضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں۔
ولا تسرقوا ترجمہ: چوری مت کرو۔ ( مشکوٰۃ )
پیارے بچوں! چوری کرنا مسلمان کا کام نہیں۔ جب کوئی شخص چوری کرتا ہے تو اس کے دل سے ایمان کا نور نکل جاتا ہے چنانچہ چوری مومن کا کام نہیں ، نبیوں کے سردارہمارے پیارے آقاحضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں چور جس وقت چوری کرتا ہے اس وقت وہ ( کامل ) مومن نہیں رہتا۔ ( بخاری و مسلم )
چوری کی سزا
پیارے بچوں! ملک عرب میں ایک عورت رہا کرتی تھی جس کا تعلق ایک بڑے گھرانے سے تھا اور اس کا نام فاطمہ تھا۔ ایک بار اس نے چوری کر ڈالی۔ پھر وہ گھبرا گئی کہ اب تو حکم قرآن کے مطابق میرا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا جیسا کہ
والسارق والسارقۃ فاقطوا ایدیھما جزآء بما کسبا نکالا من اللہ ط واللہ عزیز حکیم ( لا یحب اللہ المآئدۃ )
ترجمہ: اور جو مرد یا عورت چور ہو تو ان کا ہاتھ کاٹو ان کے کئے کا بدلہ اللہ عزوجل کی طرف سے سزا اور اللہ عزوجل غالب حکمت والا ہے۔ ( کنزالایمان )
چنانچہ اس عورت اور اس کے خاندان والوں نے چاہا کہ فاطمہ کسی طرح اس سزا سے بچ جائے تو انہوں نے مشورہ کیا اور صحابی رسول حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہ کو سفارشی بنا کر ہمارے پیارے آقاحضرت محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ حضرت اسامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بمشکل سفارش کی تو پیارے حضور حضرت محمد مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اظہار ناراضگی فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ تم سے پہلے لوگ اسی وجہ سے ہلاک ہوئے کہ جب ان میں کوئی شریف ( بڑا، عزت والا ) چوری کرتا ہے تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی غریب شخص چوری کرتا تو اس پر حد ( ہاتھ کاٹنا ) جاری کرتے۔ اللہ عزوجل کی قسم! اگر میرے عزیزوں میں سے کوئی ایسا کرتا تو میں اس کو بھی یہ سزا دیتا۔ ( بخاری و مسلم )
پیارے بچوں! دیکھا آپ نے ! چوری کرنے کی سزا کتنی سخت ہے۔ یہ دنیا کی سزا ہے آخرت میں اس سے بھی زیادہ ہولناک سزا دی جائے گی۔ لٰہذا اس گناہ کے قریب بھی نہ جائیے بلکہ جو بچے چوری کرتے ہیں، دوسروں کی چیزیں اٹھا کر استعمال کرتے ہیں ان سے بھی دور رہئے کہ کہیں ان کی دوستی کی وجہ سے آپ بھی چور نہ بن جائیں۔ 
لٰہذا چوری کے گناہ کے قریب بھی نا جائیے اگر کوئی بچہ چرائے مال میں آپ کو شریک بنائے یا ایسا مال آپ کو کھلانا چاہے تو ہرگز ان کے ساتھی نہ بنئے بلکہ ایسے چور بچوں سے دور رہئے۔
اے ہمارے پیارے اللہ عزوجل! ہمیں چوری کے گناہ سے نفرت عطا فرما بلکہ ہر گناہ کی نحوست سے ہمیں محفوظ و مامون فرما اور اپنا پسندیدہ بندہ بنا۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے